اسلام آباد(صباح نیوز)ماہرین نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے پیچیدہ بحرانوں کے دوران انصاف کی فوری فراہمی کیلئے ثالثی کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ روایتی عدالتی چارہ جوئی کے بجائے ثالثی کے ذریعے تنازعات کا حل مستقبل کا راستہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی سرحدوں کی پابند نہیں ، یہ ایک عالمی بحران ہے جو ہر قوم، ہر معاشرے اور ہر شعبے کو متاثر کر رہا ہے۔پالیسی ادارہ برائے پائدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اشتراک سے ماحولیاتی خلا کو پاٹنا: ثالثی اور ماحولیاتی شعور پر مبنی وکالت کے موضوع پر منعقدہ گول میز مذاکرے میں ملکی و غیرملکی قانونی ماہرین اور جج صاحبان نے اس بات پر زور دیا کہ ماحولیاتی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے قانونی برادری کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جاوید حسن نے کلیدی خطاب میں پاکستان کے ماحولیاتی قانونی چارہ جوئی میں قائدانہ کردار کو اجاگر کیا۔ انہوں نے بتایاکہ پاکستانی عدالتوں نے ایسی قانونی روایت قائم کی ہے جسے عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان پہلا ملک ہے جس نے ماحولیاتی تخفیف اور مصالحت کو لازم قرار دینے والے فیصلے سنائے اور 26ویں آئینی ترمیم میںماحولیاتی حقوق کے اعتراف کا حوالہ دیا۔جسٹس جاوید حسن نے تجویز دی کہ عدلیہ کو یہ اختیار حاصل ہونا چاہئے کہ وہ مصالحت کے عمل میں تعاون نہ کرنے والی کسی بھی فریق کو سزا دے سکے۔
اجلاس کا آغاز کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی کے سربراہ نے ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے عوامی حقوق کے فروغ کیلئے ایس ڈی پی آئی کی دیرینہ خدمات اور عدلیہ و قانونی برادری کے ساتھ اشتراک کو اجاگر کیا۔انہوں نے کہا کہ قدرتی آفات کو روکا تو نہیں جا سکتا مگر پالیسیوں اور عمل درآمد کے ذریعے ان کے تباہ کن اثرات کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ وزیرِ اعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے ماحولیاتی آگہی اور تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی سرحدوں کی پابند نہیں ، یہ ایک عالمی بحران ہے جو ہر قوم، ہر معاشرے اور ہر شعبے کو متاثر کر رہا ہے۔ اس جنگ میں وکلااور عدلیہ کا کردار کلیدی ہے۔ اگر ہم ایک مستقبل شناس نظامِ انصاف تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو وکلاکوماحولیاتی سائنس، ماحولیاتی قانون اور پائیدار طریقوں سے آشنا کرنا لازم ہے۔
رومینہ خورشید عالم نے انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن اور ایس ڈی پی آئی جیسے اداروں کی ماحولیاتی تعلیم کے فروغ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اپنی قانونی عمل داری میں ماحولیاتی شعور پر مبنی مصالحت کو اپنانے کیلئے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔تقریب کی نظامت بین الاقوامی بار کونسل کی بیرسٹر سارہ کاظمی نے کی ۔انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن کی نمائندہ ایملی موریسن نے آسٹریلیا سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے عالمی وکلاپر زور دیا کہ وہ آئندہ سی او پی 30 اجلاس سے قبل ماحولیاتی امور میں فعال شرکت کو یقینی بنائیں۔ پینل مباحثے میںڈاکٹر پلوشہ نے خیبرپختونخوا کی ماحولیاتی کمزوریوں کو اجاگر کرتے ہوئے ایک ہم آہنگ قومی ماحوتی ایکشن پلان کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ سابق وزیر قانون سندھ عمر سومرو نے پیچیدہ ماحولیاتی تنازعات میں مصالحت کو مرکزی دھارے میں لانے کیلئے قانون سازی میں اصلاحات کی اہمیت پر روشنی ڈالی
۔سید بلیغ سہیل نے کہا کہ ماحولیاتی شعور کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بار کونسلز کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا ۔انگلینڈ اور ویلز کی عدلیہ سے جسٹس سفیان رانا اور بیرسٹر غزن محمود نے تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں وولف اصلاحات کے بعد مصالحت کو عدالتوں میں لازم قرار دیا جا چکا ہے جبکہ پاکستان میں بھی گزشتہ ایک برس میں پندرہ سے زیادہ نمایاں فیصلے مصالحت کو لازمی قرار دیتے ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سید واجد علی گیلانی نے ان مباحثوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہم نے ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے کہ کس طرح قانونی پیشہ ماحول دوست انصاف کے فروغ میں مو ثر کردار ادا کر سکتا ہے۔سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس مشیر عالم نے یاد دلایا کہ 2007 میں کراچی میں پاکستان کا پہلا متبادل تنازعات کے حل کا مرکز (اے ڈی آر سینٹر) قائم کیا گیا تھا اور اس وقت بھی یہ بات اجاگر کی گئی تھی کہ مصالحت میں مہارت وکلاکے لئے ایک لازمی ہنر ہے تاکہ وہ مستقبل کے ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ایک مضبوط قانونی ڈھانچہ تشکیل دے سکی
© 2025 SDPI. All Rights Reserved Design & Developed by NKMIS WEB Unit