اسلام آباد(صباح نیوز)بلوچستان کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے دوسرے مرحلے میں انسانی ترقی کے مرکز کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اسے خطے کی پائیدار معاشی خوشحالی کا دروازہ بنایا جا سکے۔یہ اتفاق رائے ملک کے ممتاز ماہرین، سفارت کاروں اور پالیسی سازوں نے اسلام آباد میں پالیسی ادارہ برائے پائدار ترقی کے زیر اہتمام بلوچستان:پائیدار ترقی کا دروازہ: سی پیک کے تحت منڈی کی ممکنات اور سرمایہ کاری کے راستے کے موضوع پر منعقدہ ایک اعلی سطح کے پالیسی مذاکرے میں کیا جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ محض بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کافی نہیں، بلوچستان کی ترقی کا محور اس کے عوام، ادارے اور ماحول ہونے چاہئیں۔ سیمینار کی نظامت ایس ڈی پی آئی کے انرجی یونٹ کے سربراہ انجینئر عبید الرحمن ضیانے کی۔
سیمینار کا آغاز کرتے ہوئے سینئر ترقیاتی ماہر ڈاکٹر حسن داوود بٹ نے کہا کہ گوادر محض بندرگاہ نہیں بلکہ یوریشیا تک پاکستان کا دروازہ ہے۔انہوں نے کہا کہ 2050 تک بلوچستان کی آبادی 2 کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ چین اور قازقستان کے سرمایہ کار بلوچستان میں ریلوے کے ڈھانچے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گوادر کو پیٹروکیمیکل اور صنعتی مرکز کے طور پر ترقی دینے کے لیے اس کی تزویراتی حیثیت کلیدی ہے۔انسٹیٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز کے صدر سفیر جوہر سلیم نے کہا کہ اگر گوادر کو موثر طریقے سے ترقی دی جائے تو پاکستان 2035 تک 40 ارب ڈالر کی ٹرانزٹ معیشت بن سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں قیمتی پھلوں اور مویشیوں کی افزائش کے وسیع امکانات موجود ہیں مگر بدعنوانی، ناقص طرز حکمرانی اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی بلوچستان کے عوام کی محرومیوں کو بڑھا رہی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ہنر مند افرادی قوت کی تیاری، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مقامی آبادی کی شمولیت کے بغیر سی پیک ناکام ہو جائے گا۔ایس ڈی پی آئی کے ڈائریکٹر پرائیویٹ پارٹنرشپس احد نذیر نے کہا کہ ادارہ جاتی اصلاحات کے بغیر سی پیک کی رابطہ کاری ترقی میں ڈھل نہیں سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان معدنیات میں مالا مال ہے مگر انسانی وسائل میں مفلس ہے۔
پالیسی میں عدم تسلسل، رابطے کی کمی اور سیاسی مداخلت اہم رکاوٹیں ہیں۔ انہوں نے پانچ اہم حکمت عملیوں کا خاکہ پیش کیا جن میں سرمایہ کاری سہولت مرکز اور زرعی کاروباری کلسٹرز کا قیام شامل ہے۔ڈاکٹر فیض کاکڑ نے کہا کہ آج تک بلوچستان میں ایک بھی موٹر وے نہیں بن سکی۔ گوادر میں نیا بین الاقوامی ہوائی اڈہ ضرور قائم ہوا ہے مگر خصوصی اقتصادی زونز تاحال بیوروکریسی کی رکاوٹوں کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چینی کمپنیوں نے 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی تجویز دی ہے لیکن وہ ایک مربوط ون ونڈو نظام کا تقاضا کر رہی ہیں۔معروف ماہر بشریات ڈاکٹر قر العین بختیاری نے ایک منفرد ثقافتی زاویہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کو صرف معدنی وسائل اور تجارتی راہداری کے زاویے سے دیکھنا ایک سنگین غلطی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تجارت اور کاروبار قوموں کو نہیں جوڑتے، ہمیں ترقی کو مقامی برادری کی بنیاد پر استوار کرنا ہو گا۔ختتامی کلمات میں سفیر جوہر سلیم نے مذاکرے میں پیش کئے گئے متنوع،خیالات کو سراہا اور کہا کہ بلوچستان کے خطے کو حقیقی ترقی کا دروازہ بنانے کے لئے ثقافتی فہم، کمیونٹی کی شراکت اور پالیسی میں تسلسل ناگزیر ہے
© 2025 SDPI. All Rights Reserved Design & Developed by NKMIS WEB Unit