Published Date: Apr 18, 2019
خیبر پختونخواہ حکومت کو غربت و علاقائی عدم مساوات سے نمٹنے کے لئے ایک جامع سوشل پروٹیکشن پروگرام تشکیل دینا ہو گا، ڈاکٹر حفیظ اے پاشا
پشاور (بدھ، 17 اپریل 2019): معروف ماہر معاشیات اور سابق و زیرِخزانہ ڈاکٹر حفیظ اے پاشا نے کہا کہ فاٹا کے خیبر پختونخواہ کے ساتھ انضمام کے سبب غربت، پسِ ماندگی اور علاقائی عدم مساوات صوبے کے بڑے چیلنجز ہیں۔ لہذا خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کو ایک جامع سماجی تحفظ کا پروگرام تشکیل دینا چاہیے اور غربت اور علاقائی عدم مساوات سے نمٹنے کے لئے ایک سوشل پروٹیکشن اتھارٹی بھی قائم کرنی چاہیے ۔
وہ ان خیالات کا اظہار پشاور میں پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) اور فریڈرک ایبرٹ سٹیفٹنگ (ایف ای ایس) کے مشترکہ ز یرِ اہتمام پری بجٹ مشاورت اور ’ترقی اور عدم مساوات‘ کے عنوان سے کتاب کی رونمائی کے موقع پر سے کر رہے تھے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ صوبے کے پسماندہ اضلاع کے لئے صوبائی حکومت ترقیاتی بجٹ میں سے مخصوص رقم مختص کرے ۔ اس موقع پر ایس ڈی پی آئی کے ڈاکٹر وقار احمد، خیبر پختونخواہ پلانگ ڈپارٹمنٹ کے ڈاکٹر ادریس خان، خیبر پختونخواہ کے سیکرٹری ایجوکیشن ارشد خان اور ایف ای ایس کے سینیرایڈوازر عبدلقادر نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر حفیظ اے پاشا نے کہا کہ نوجوانوں کی ترقی خیبر پختونخواہ حکومت کا ایک سنگین مسئلہ ہے اور صوبائی اسکیم جیسے ’انصاف روزگار اسکیم‘ نوجوانوں کے لئے مرکزی کردار ادا کرے ۔ انہوں نے کہا کہ آٹھارویں آئینی ترمیم اور نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے بعد خیبر پختونخواہ حکومت نے سروسز پر سیلز ٹیکس کی مد میں آخری سال صرف 11 بلین روپے جمع کیے، جبکہ سندھ اور پنجاب نے 220 ارب روپے جمع کیے۔ ریونیو جمع کرنے میں خیبر پختونخواہ حکومت کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ انہوں نے تجویز کیا کہ صوبائی حکومت ٹیلی کام سیکٹر ، ہوٹلوں ، بلڈرز ، ڈویلپرز، گاڑیوں کی مرمت، بینکنگ انشورنس اور سروسز پر سیل ٹیکس متعارف کروا کر اپنی کل آمدنی سالانہ 50 ارب تک بڑھا سکتی ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ خیبر پختونخوا کا رشاکئی اقتصادی زون سی پیک کے قریب تر ہونے کی وجہ سے بڑا فائدہ اُٹھا سکتاہے ۔
جوائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ڈی ڈی پی آئی ڈاکٹر وقار احمد نے کہا کہ خیبر پختونخواہ حکومت انفارمل سیکٹر کو فارمل سیکٹر میں لانے کے لیے کاروباری برادری کو اعتماد میں لے ۔ انہوں نے کہا کہ ٹرانزٹ ٹریڈ اور افغانستان کے ساتھ تجارت سے صوبائی معیشت کو فائدہ ہو گا۔ کاروبارکے لیے آسانی پیدا کرنے کی اصلاحات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبے میں چھوٹے اور درمیانے سائز کے کاروبار (ایس ایم ایز) کو تین درجن سے زائد ٹیکسزز اور اضافی سرچارج کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کو ریشنل کرنے کی ضرورت ہے۔ خیبر پختونخواہ حکومت کے پلانگ اور ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے سینئر چیف ڈاکٹر ادریس خان نے کہا کہ وہ صوبے کے لئے ایک درمیانی مدت کے پائیدار ترقیاتی حکمت عملی پر کام کررہے ہیں، جو پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) پر عملدرآمد یقینی بنائے گی۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے 2025 تک قومی گرڈ میں تقریبا 4000 میگاواٹ بجلی شامل کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے۔ ایف ای ایس کے سینئر ایڈوازر عبدالقادر نے کہا کہ پاکستان میں بجٹ بنانے کے عمل پر جامع بحث کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے یونیورسٹیوں کو جدید تحقیق اقتصادی وزارتوں اور محکموں تک پہنچانی چاہیے۔ اس سلسلے میں ’ اکانومی آف ٹومارو‘ پروگرام کے تحت تمام شراکت داروں سے تجاویز طلب کی گئی ہیں جسے بعد میں مرتب کر کے متعلقہ وزارتوں تک پہنچایا جائے گا۔
پشاور کے انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز کے ڈاکٹر ایم رفیق ، ریونیواتھارٹی سے فضل امین شاہ، بورڈ ممبرکے پی اکنومک زون عدنان جلیل اور دیگرحکومتی اداروں کے نمائندوں نے بھی اس پری بجٹ میٹنگ میں شرکت کی۔