Published Date: Oct 11, 2018
فاٹا میں بلدیاتی انتخابات جلد کرائے جائیں، مقررین
فاٹا کا خیبر پختونخواہ میں انضمام کے باوجود فاٹا کے لوگوں میں احساس محرومی برقرار ہے ، کیونکہ فاٹا کے لوگ سمجھتے ہیں کی ان کو سیاسی اور جمہوری عمل سے باہر رکھا جا رہا ہے ۔ فاٹا کے لوگوں کو سماجی اور سیاسی طور پر شمولیت کے لیے حکومت فوری طور پر مقامی انتخابات کا انعقا د یقینی بنائے ۔ اس کے علاوہ، ایک مؤثر اور اصلاحاتی عدالتی نظام کو بتدریج نافذ کیا جانا چاہئے۔
مقررین نے ان خیالات کا اظہار پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام خیبر پختونخواہ میں فاتا کے انضمام کے حوالے سے ایک تقریب میں کیا۔
اس موقع پر فرحت اللہ بابر سابق سینٹر پاکستان پیپلزپارٹی نے کہا کہ فاٹا کے انضمام کا بل ( جس کو فاٹا انٹرم گورننس ریگولیٹری 2018 بھی کہا جاتا ہے) جس تیزی سے اور جن حالات میں پاس کرایا گیا اس پر سیاسی قوتوں کے درمیان خدشات بڑھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کی وفاقی کابینہ کا یہ فیصلہ اتفاق رائے سے نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اسمبلی میں ایک قرارداد لائے جس میں خیبر پختونخواہ صوبائی اسمبلی کو فاٹا انٹرم گورننس ریگولیٹری 2018 میں ترمیم کا اختیار ہو۔ اس سے فاٹا انضمام بل کے ارد گرد تضاداد کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر نومان وزیر نے کہا کہ گزشتہ 70 سالوں کے دوران فاٹا کے لوگوں کو نظر انداز کیا گیا اورکوئی توجہ نہ دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے اثرات خیبر پختونخواہ تک ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا میں 90 فیصد بیروزگاری ہے، جہاں ذریعہ معاش نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس تناظر میں فاٹا کے انضمام بل کی منظوری صحیح اور درست اقدام تھا۔انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ فاٹا کے انضمام کی مخالفت نہ کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ فاٹا کے لئے فنانس کو یقینی بنانا ہر سیاسی جماعت کی سب سے بڑی ترجیح ہونی چاہیئے۔
عطاء الرحمان سینیٹر جمعیت الاسلام اسلام (ایف) نے کہا کہ ہمارے پاس اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے فیصلوں میں فاٹا کے مقامی لوگوں کوشامل کر لیں۔ انہوں نے تجویز کیا کہ تمام سیاسی کارکن اور رہنماؤں کو فاٹا کے انضمام اور اس کے مستقبل کے لئے ایک متفقہ لا ئحہ عمل بنانے کے لئے مل کر بیٹھنا چاہیے۔
سابق سینٹر عوامي نیشنل پارٹی افرا سیاب خٹک نے کہا کہ فاٹا کے انضمام کوئی بڑا مسئلہ نہیں تاہم بڑا اہم چیلنج فاٹا کے عوام کی سماجی، اقتصادی اور سیاسی شمولیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کے انضمام کے بعدبھی اس خطے میں کوئی قانون نہیں ہے ، جہاں پرانے نظام کو منسوخ کر دیا گیا ہے او ر نیا فاٹا انٹرم گورننس ریگولیٹری نظام ابھی مؤثر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا میں لوگوں کی سیاسی اور جمہوری شراکت داری کے لیے ضروری ہے کہ مقامی سطح پر انتخابات بغیر کسی تاخیر کے منعقد کرائے جائیں۔
سینئر صحافی سلیم صافی نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ فاٹا کے علاقے میں کوئی نظام نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ فاٹا میں صوبائی اور مقامی حکومت کے انتخابات کو فوری طور پر منعقد کیا جانا چاہئے۔ مزید برآں، وفاقی حکومت این ایف سی کے پول سے فاٹا کے لیے تین فی صد کی فراہمی کے لئے این ایف سی ایوارڈ کے عمل کو تیز کرنا چاہئے۔
منیر خان اورکزئی ایم این اے جمیعت علماء اسلام (ایف) نے کہا کہ ان کی پارٹی فاٹا کیانضمام کے خلاف نہیں تھی بلکہ انضمام کے حق میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی ایف کی واحد مطالبہ فاٹا انضمام کے حوالے سے فاٹا کی عوام کی رائے شامل کرنا تھا۔
ملک انور تاج ایم این اے ، پی ٹی آئی، سینئر تجزیہ کار حسن خان اور یو این ڈی پی سے ڈاکٹر اشرف علی نے بھی اظہار خیال کیا۔