اسلام آباد(صباح نیوز) پالیسی ادارہ برائے پائیداترقی کے تحت اسلام آباد میں سالانہ پائیدار ترقی کانفرنس میں ماہرین نے قرار دیا ہے کہ سرکاری محکموں میں ربط اور پالیسیوں کاتسلسل ماحولیاتی صحت کیلئے ناگزیر ہے کانفرنس سے ڈاکٹر حفیظ پاشا، عبدالجبار ، عامر گورایا،ڈاکٹر حمزہ علی، عائشہ غوث اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے بھی خطاب کیا۔عابد قیوم سلہری نے کہا ہے کہ ہمیں اس امر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے کہ دولت فرد کی ہے لیکن وسائل پر حق معاشرے کا ہیپائیدار پیداوار اور پائیدار کھپت کے تصور سے سماجی انصاف کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
وہ یہاں سالانہ پائیدار ترقی کانفرنس کے دوسرے دن سرکلر اکانومی اورموسمیاتی ایجنڈا کے موضوع پر منعقدہ سیشن سے خطاب کر رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ پیداوار اور کھپت کے حوالے سے ہمارے پاس بہت سی پالیسیاں ہیں لیکن ان پر عملدرآمد توقع سے کم ہے۔انہوں نے پائیدار پیداوار اور کھپت کے کامیاب ماڈلز سے سیکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ زیادہ پیداوار اہم ضرور ہے لیکن اس کی کھپت کی افادیت بھی کم نہیں ہے ۔ بھارت کے ماہر موسمیات سنجے وشست نے پائیدار پیداوار اور کھپت کے تناظر میں حکومت، سول سوسائیٹی ،پالیسی سازوں اور نجی شعبے کے درمیان تبادلہ کی ضرورت پر زور دیا۔پائیدار ترقی اہداف سے متعلق ٹاسک فورس کے نمائندے ڈاکٹر علی کمال نے کہا کہ ہمیں اپنے وسائل کو ذمہ داری سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق ہم سالانہ 36 ملین ٹن خوراک ضائع کر تے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پائیدار ترقی اور پیداوار کے لئے ہمیں قدرتی وسائل اور مواد کے استعمال کو اس انداز میں کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے جو سماجی طور پر خاص طور پر ماحولیاتی نقطہ نظر سے فائدہ مند ہو۔ ایف پی سی سی آئی کے مرکزی رہنما انجنیئر عبدالجبار نے کہا کہ سرکلر اکانومی اور گردش کا تصور پراناہو چکا ہے لیکن کارکردگی پیداوار کی حیثیت کلید ی ہے۔ یو این ڈی پی کے عامر خان گورایا نے سوال کیا کہ اگر ری سائیکلنگ نہیں کی جارہی تو وسائل کی تقسیم کیسے ہو سکتی ہے ۔ انہوں نے کارکردگی کے تناظر میں کاربن فٹ پرنٹ کی شناخت کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر حفیظ اے پاشا نے کہا ہے کہ تحفظ کا انداز افراد کی عادات واطوار اور اسلحہ سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس امر کا اظہار انہوں نے ایس ڈی پی آئی کی سالانہ پائیدارترقی کانفرنس میں ایف ای ایس کے اشتراک