موسمیاتی تبدیلی معیشت کو چاٹ رہی ہے،جی ڈی پی کا دو فیصد سیلاب کھا جاتا ہے، بچاو نہ ہوا تو بحران بڑھے گا
سیلاب اور ماحولیاتی تبدیلی نیا معمول ہیں، ہمیں پیشگی تیاری کرنا ہوگی: ایس ڈی پی آئی کے سربراہ کی نجی ٹی وی سے گفتگو
:اسلام آباد
ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اور سیلاب اب ایک نیا معمول بن چکے ہیں ہمیں ان کے ساتھ جینے کی عادت ڈالنا ہوگی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پاکستان نے فوری طور پر موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مزاحمتی ڈھانچہ تیار نہ کیا اور سیلاب سے بچاو کے پائیدار اقدامات نہ کئے تو ملک بار بار تباہ کن سیلابوں اور کھربوں روپے کے معاشی نقصان کا شکار ہو کر شدید مالی بحران میں مبتلا ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ سیلابی نقصانات جی ڈی پی کا تقریباً دو فیصد نگل لیتے ہیں جبکہ اگر صرف ایک فیصد سرمایہ کاری کر دی جائے تو مستقبل میں 2 سے 3 فیصد سالانہ نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے پیشگی منصوبہ بندی، مضبوط مالی حکمتِ عملی، انفراسٹرکچر کی بہتری اور انشورنس و ری انشورنس جیسے جدید اقدامات ناگزیر ہیں۔نجی ٹی وی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث بار بار آنے والے سیلاب روکنے کے لئے بروقت اور پائیدار اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ یہ نقصانات معیشت کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیں گے۔ انہوں نے موسمیاتی تبدیلی کو ایک "وبا" قرار دیا اور کہا کہ دنیا کا کوئی ملک اس سے محفوظ نہیں ہے امریکا سے چین اور یورپ تک غیر معمولی سیلاب آ رہے ہیں اور پاکستان،بھارت اور نیپال بھی اسی خطرے کی زد میں ہیں فرق صرف تیاری اور مالی سکت کا ہے۔انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی آفات اور سیلاب کی وجہ سے ہر سال اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے جو ملک کے لئے ناقابلِ برداشت ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ "نقصان" اور "زیاں" میں فرق ہے: نقصان وہ ہے جو نظر آتا ہے،جیسے فصلوں کی تباہی نظر آتی ہے جبکہ زیاں وہ ہے جو آئندہ پیداوار اور سرمایہ کاری کے مواقع ضائع ہونے سے ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں سیلاب سے بچاؤ کے کئی منصوبے شروع ہوئے مگر مکمل نہ ہو سکے کیونکہ جو فنڈز مختص ہوئے وہ کووڈ-19 اور دیگر ہنگامی حالات میں خرچ کر دیئے گئے۔ 2022 میں وسائل صرف ریلیف پر لگائے گئے اور اب 2025 میں پھر ایک بڑے سیلاب کا سامنا ہے مگر طویل المدتی حکمتِ عملی آج بھی موجود نہیں۔ڈاکٹرعابد سلہری نے زور دیا کہ حکومت اگر صرف ایک فیصد جی ڈی پی سیلابی تحفظ پر لگا دے تو ملک کو سالانہ اربوں روپے کے نقصانات سے بچایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے قرار دیا کہ یہ وقت ہے کہ سیلابی تحفظ کو قومی ترجیح بنایا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ دریاوں اور نالوں پر غیر قانونی تعمیرات خطرناک ہیں اور اگر شہری منصوبہ بندی میں ماحولیاتی خدشات کو شامل نہ کیا گیا تو ہر سال اسی طرح تباہی ہوتی رہے گی۔ 2025 نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ لچکدار ڈھانچوں کے بغیر ہم انہی سانحات کے اسیر رہیں گے۔انہوں نے تجویز دی کہ پاکستان کو دنیا کے تجربات سے سیکھتے ہوئے انشورنس، ری انشورنس اور ماحولیاتی لیوی جیسے مالیاتی ذرائع اپنانا ہوں گے تاکہ متاثرہ افراد کو معاوضہ دیا جا سکے اور بہتر بحالی کو آسان بنایا جاسکے۔گفتگو کے اختتام پر ڈاکٹر سلہری نے کہاکہ جب تک ہم سائنس، اعداد و شمار اور بہتر حکمرانی کو یکجا نہیں کرتے پاکستان تباہی اور قرض کے چکر سے نہیں نکل سکے گا۔
© 2025 SDPI. All Rights Reserved Design & Developed by NKMIS WEB Unit